السلام علیکم! دوستو، کیا حال چال ہیں آپ کے؟ مجھے پوری امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ آج کل ہر طرف مصنوعی ذہانت (AI) کا چرچا ہے۔ یقین کریں، یہ ایسی تبدیلی ہے جس نے ہماری سوچ اور زندگی کے ہر شعبے کو چھو لیا ہے۔ جب سے میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے AI ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو رہا ہے، مجھے احساس ہوا کہ اس کے صرف فائدے ہی نہیں بلکہ کچھ سنجیدہ چیلنجز بھی ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ ٹیکنالوجی بڑے بڑے مسائل حل کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف اس کے اخلاقی پہلوؤں پر گہرا غور و فکر بھی شروع ہو گیا ہے۔سوچیں ذرا، جب مشینیں خود فیصلے کرنے لگیں گی تو ذمہ داری کس کی ہوگی؟ ڈیٹا کی رازداری کا کیا بنے گا؟ اور سب سے اہم بات، تعصب سے پاک فیصلے کیسے یقینی بنائے جائیں گے جب AI سسٹمز ہماری ہی بنائی ہوئی معلومات سے سیکھتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اور خاص طور پر پاکستان میں بھی، AI کی اخلاقیات اور اس سے جڑے معاشرتی مسائل پر بات ہو رہی ہے اور ‘اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز’ کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ یہ ادارے نہ صرف رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ ایسے اصول و ضوابط بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو رہے ہیں جو اس تیز رفتار ترقی کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کر سکیں۔ایسی سوسائٹیز کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ AI کا مستقبل روشن تو ہے، مگر اس روشنی میں کسی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم AI ایجنٹس کو مزید عام ہوتے دیکھیں گے جو ہمارے روزمرہ کے کاموں میں مزید فعال کردار ادا کریں گے، اور ایسے میں اخلاقی فریم ورک کی ضرورت اور بھی بڑھ جائے گی۔ آئیے، نیچے دی گئی تحریر میں ہم ان تمام موضوعات پر مزید تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے اخلاقی چیلنجز: ایک گہری نظر

یقین کریں دوستو، جب سے میں نے مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں کو قریب سے دیکھا ہے، مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یہ صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی قوت ہے۔ جیسے جیسے AI ہمارے روزمرہ کے فیصلوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے، اس کے ساتھ کئی نئے اخلاقی سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کوئی AI سسٹم کسی اہم شعبے میں، جیسے کہ صحت یا مالیات، کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ اگر کسی مریض کی تشخیص میں AI کی وجہ سے غلطی ہوتی ہے تو کیا ڈاکٹر ذمہ دار ہوگا، یا AI بنانے والی کمپنی، یا خود وہ سسٹم؟ یہ کوئی معمولی سوالات نہیں ہیں، بلکہ ان کا جواب ہماری قانونی اور اخلاقی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے اس ٹیکنالوجی کی برق رفتاری کے ساتھ اخلاقی رہنما اصولوں کی تیاری میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ہم کیسے ایک ایسا نظام بنائیں جہاں AI کے فیصلوں میں شفافیت ہو اور کسی بھی غلطی کی صورت میں جوابدہی کا ایک واضح طریقہ کار موجود ہو۔ یہ نہ صرف عوامی اعتماد کو بحال کرے گا بلکہ ٹیکنالوجی کی پائیدار ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
فیصلوں کی ذمہ داری کس پر؟
یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جو آج ہر اس فورم پر زیر بحث ہے جہاں AI کی اخلاقیات پر بات ہو رہی ہے۔ جب ہم خود چلنے والی گاڑیوں کی بات کرتے ہیں یا AI سے چلنے والے طبی آلات کی، تو اگر کوئی حادثہ یا غلطی ہو جائے تو کسے قصوروار ٹھہرایا جائے؟ کیا یہ پروگرام لکھنے والے کی غلطی ہے، یا اس کمپنی کی جس نے اسے بنایا، یا اس شخص کی جس نے اسے استعمال کیا؟ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے جو ان ذمہ داریوں کو واضح طور پر تقسیم کرے۔ یہ محض ایک ٹیکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ اخلاقی، قانونی اور معاشرتی اقدار کا حسین امتزاج ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ AI کو “بلیک باکس” کے طور پر نہیں چھوڑا جا سکتا جہاں فیصلے تو ہوں مگر ان کے پیچھے کی منطق اور ذمہ داری واضح نہ ہو۔ میرے خیال میں اس میں شامل تمام فریقین، یعنی ڈویلپرز، مینوفیکچررز، صارفین اور قانون ساز، سب کو مل کر ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا ہوگا جو ہر سطح پر جوابدہی کو یقینی بنائے۔
بے روزگاری اور معاشرتی اثرات
اے آئی کے اخلاقی چیلنجز صرف فیصلوں کی ذمہ داری تک محدود نہیں ہیں۔ اس کا ایک بڑا پہلو روزگار کے مواقع اور معاشرتی ڈھانچے پر اس کے ممکنہ اثرات بھی ہیں۔ میں نے کئی لوگوں کو پریشان ہوتے دیکھا ہے کہ کیا AI ان کی ملازمتیں چھین لے گا؟ جب مشینیں وہ کام کرنے لگیں گی جو آج انسان کر رہے ہیں تو انسانی محنت کی قدر کیا ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ AI کو کیسے اس طرح استعمال کیا جائے کہ وہ انسانیت کی خدمت کرے، نہ کہ اسے بے روزگار کرے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ترقی کو روک دیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم ایسی پالیسیاں بنائیں جو اس تبدیلی کو اس طرح منظم کریں کہ کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو نئی مہارتیں سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ AI کے ساتھ کام کر سکیں، نہ کہ اس کے خلاف۔ میری ذاتی رائے میں، حکومتوں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ اس چیلنج کو ایک موقع میں بدلا جا سکے۔
ڈیٹا کی رازداری اور تعصب کا مسئلہ: AI کے تاریک پہلو
جب ہم AI کی بات کرتے ہیں تو ڈیٹا کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ یقین کریں دوستو، AI کا سارا نظام ڈیٹا پر منحصر ہے۔ جتنا زیادہ اور بہتر ڈیٹا، اتنا ہی بہتر AI سسٹم۔ لیکن اسی ڈیٹا میں چھپے ہیں کئی اخلاقی اور نجی نوعیت کے چیلنجز۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے بڑے بڑے ڈیٹا لیکس نے لاکھوں افراد کی ذاتی معلومات کو خطرے میں ڈالا ہے، اور جب یہی ڈیٹا AI ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ کون نہیں چاہے گا کہ اس کی ذاتی معلومات محفوظ رہیں؟ لیکن AI کی دنیا میں یہ ایک مسلسل جنگ ہے۔ اس کے علاوہ، AI سسٹم اکثر اسی ڈیٹا سے سیکھتے ہیں جو انسانی معاشرے سے جمع کیا جاتا ہے، اور چونکہ ہمارا معاشرہ خود تعصبات سے پاک نہیں، اس لیے یہ تعصبات AI ماڈلز میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے، کیونکہ ایک متعصب AI سسٹم نہ صرف غیر منصفانہ فیصلے کرے گا بلکہ معاشرتی ناہمواری کو مزید بڑھاوا دے سکتا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ AI کی ترقی کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کی رازداری اور تعصب سے پاک الگورتھمز پر بھی توجہ دی جائے۔
ذاتی معلومات کا تحفظ
ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کی ذاتی معلومات محفوظ رہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ڈیٹا کی رازداری صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا ایک اہم حصہ ہے۔ جب ہم اپنی تصاویر، ویڈیوز، رابطے اور دیگر ذاتی ڈیٹا انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں تو ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ معلومات محفوظ رہیں گی۔ لیکن AI سسٹمز اس ڈیٹا کو اس طرح سے استعمال کر سکتے ہیں جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ میرے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ AI کمپنیاں اور ڈویلپرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ڈیٹا کے استعمال میں شفافیت برتیں اور صارفین کو یہ اختیار دیں کہ ان کا ڈیٹا کیسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے سخت قوانین اور بہتر تکنیکی حل دونوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر صورت میں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری ڈیجیٹل زندگی ہماری ذاتی زندگی کی طرح ہی محفوظ ہو۔
الگورتھمک تعصب کو سمجھنا
میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے بظاہر غیر جانبدار نظر آنے والے AI سسٹمز بھی تعصب کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ AI انہی ڈیٹا سیٹس پر تربیت حاصل کرتا ہے جو انسانوں نے بنائے ہیں، اور اگر ان ڈیٹا سیٹس میں تاریخی یا معاشرتی تعصبات شامل ہوں، تو AI بھی انہی تعصبات کو اپنا لیتا ہے۔ فرض کریں کہ نوکریوں کے لیے امیدواروں کی چھانٹی کرنے والا AI سسٹم اگر ماضی میں کامیاب ہونے والے مخصوص گروہوں کے ڈیٹا پر تربیت حاصل کرے گا، تو وہ غیر شعوری طور پر دوسرے گروہوں کے امیدواروں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اخلاقی مسئلہ ہے جو مساوات اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہمیں بطور انسان اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم ایسے الگورتھمز بنائیں جو تعصب سے پاک ہوں اور تمام افراد کو یکساں مواقع فراہم کریں۔ اس کے لیے ڈیٹا سائنسدانوں اور اخلاقیات کے ماہرین کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ڈیٹا سیٹس میں موجود تعصبات کو پہچانا اور دور کیا جا سکے۔
اے آئی میں شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت
دوستو، اے آئی کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ایک اور اہم چیلنج جس کا میں نے بارہا تجربہ کیا ہے وہ شفافیت کا فقدان ہے۔ جب کوئی اے آئی سسٹم کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اکثر ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے یہ فیصلہ کیسے کیا۔ یہ ایک “بلیک باکس” کی طرح کام کرتا ہے، جہاں ہمیں ان پٹ اور آؤٹ پٹ تو نظر آتے ہیں، لیکن اندرونی پروسیسنگ پوشیدہ رہتی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ بات بہت پریشان کرتی ہے، کیونکہ اگر ہم کسی فیصلے کی بنیاد کو نہیں سمجھ سکتے تو اس پر کیسے اعتماد کریں گے؟ اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی اصلاح کیسے کی جائے گی؟ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ اے آئی سسٹمز میں شفافیت اور جوابدہی کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے میکانزم بنانے ہوں گے جو اے آئی کے فیصلوں کی وضاحت فراہم کر سکیں، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ یہ کس منطق پر مبنی ہیں۔ یہ عوامی اعتماد پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں اے آئی کے فیصلے انسانی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے کہ صحت کی دیکھ بھال، عدالتیں یا مالیاتی خدمات۔
بلیک باکس سے پردہ اٹھانا
اے آئی کا “بلیک باکس” ہونا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر دنیا بھر کے ماہرین غور کر رہے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم اے آئی کے اندرونی میکانزم کو نہیں سمجھیں گے، اس کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد نہیں کر پائیں گے۔ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے ہوں گے جو اے آئی ماڈلز کو زیادہ قابل فہم بنا سکیں۔ یعنی، ہم یہ جان سکیں کہ کسی خاص فیصلے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے۔ یہ صرف ماہرین کے لیے نہیں بلکہ عام صارفین کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ان کے ساتھ اے آئی نے کیا سلوک کیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ محققین “قابل وضاحت اے آئی” (Explainable AI – XAI) پر کام کر رہے ہیں، جو اس مسئلے کا حل فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ایک بڑا قدم ہوگا اے آئی کو زیادہ ذمہ دار اور قابل اعتماد بنانے کی طرف۔
غلطیوں کا اعتراف اور اصلاح
جس طرح انسان غلطیاں کرتے ہیں، اسی طرح اے آئی سسٹمز بھی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم ان غلطیوں کو پہچانتے ہیں اور انہیں کیسے درست کرتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ اے آئی کی ترقی میں غلطیوں کا اعتراف اور ان کی اصلاح کا ایک واضح طریقہ کار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اے آئی سسٹم غلطی کرتا ہے جس سے کسی فرد کو نقصان پہنچتا ہے تو اس غلطی کو فوری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس کی تلافی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہمیں ان سسٹمز کو بہتر بنانے کے لیے ان غلطیوں سے سیکھنا بھی چاہیے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں فیڈ بیک، مانیٹرنگ اور اپڈیٹس شامل ہیں۔ اگر ہم یہ نظام وضع نہیں کریں گے تو لوگ اے آئی پر سے اعتماد کھو دیں گے، جو کہ اس ٹیکنالوجی کی طویل المدتی کامیابی کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔
سوسائٹیز کا کردار: اخلاقی فریم ورک کی تعمیر
جب سے اے آئی نے ہماری زندگیوں میں قدم رکھا ہے، مجھے یہ بات شدت سے محسوس ہوئی ہے کہ اس کی اخلاقی جہتوں پر غور کرنے کے لیے محض انفرادی کوششیں کافی نہیں۔ ہمیں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز کا کردار نمایاں ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی ایسی سوسائٹیز کو فعال ہوتے دیکھا ہے جو نہ صرف اے آئی سے جڑے اخلاقی مسائل پر تحقیق کر رہی ہیں بلکہ عملی حل بھی پیش کر رہی ہیں۔ یہ سوسائٹیز اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ایک رہنما کے طور پر کام کرتی ہیں، جہاں وہ ماہرین، قانون سازوں، صنعت کاروں اور عام عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں تاکہ اے آئی کی اخلاقی ترقی کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ ان کا کام صرف بحث و مباحثہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ عملی رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں کہ کیسے اے آئی کو ذمہ داری کے ساتھ ڈیزائن، تیار اور استعمال کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا کردار آنے والے وقت میں اور بھی اہم ہوتا جائے گا کیونکہ اے آئی مزید پیچیدہ اور ہمارے معاشرے میں مزید گہرائی سے شامل ہوتا جائے گا۔
رہنما اصولوں کی تشکیل
میرے تجربے میں، کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو معاشرتی طور پر قابل قبول بنانے کے لیے واضح رہنما اصولوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز اسی میدان میں اپنا سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ سوسائٹیز دنیا بھر کے ماہرین کے ساتھ مل کر ایسے اخلاقی فریم ورک اور ضابطہ اخلاق تیار کرتی ہیں جو اے آئی ڈویلپرز اور صارفین کو ایک واضح سمت فراہم کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان اصولوں میں شفافیت، انصاف، رازداری، جوابدہی اور انسانی کنٹرول جیسے بنیادی اقدار کو شامل کیا جاتا ہے۔ ان اصولوں کی تشکیل سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم اے آئی کو اس طرح سے استعمال کریں جو انسانیت کے بہترین مفاد میں ہو۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ اے آئی کی ٹیکنالوجی بہت تیزی سے بدل رہی ہے، لیکن ان سوسائٹیز کی مسلسل کوششوں سے ہی ہم اس چیلنج پر قابو پا سکتے ہیں۔
عوامی بیداری اور تعلیم
مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز کا ایک اور بڑا کام عوامی بیداری اور تعلیم ہے۔ عام آدمی کو یہ سمجھانا کہ اے آئی کیا ہے، کیسے کام کرتا ہے اور اس کے اخلاقی مضمرات کیا ہیں، انتہائی ضروری ہے۔ اگر عوام ان مسائل سے واقف نہیں ہوں گے تو وہ نہ تو اے آئی کے استعمال پر سوال اٹھا سکیں گے اور نہ ہی اس کی بہتر ترقی میں حصہ لے پائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سوسائٹیز مختلف ورکشاپس، سیمینارز اور پبلک کمپینز کے ذریعے لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جتنے زیادہ لوگ اے آئی کی اخلاقیات سے واقف ہوں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں جہاں اے آئی ایک مثبت قوت کے طور پر کام کرے۔
پاکستان میں اے آئی اخلاقیات: کیا ہم تیار ہیں؟
اب بات کرتے ہیں اپنے پیارے ملک پاکستان کی۔ مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان بھی اے آئی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ ہمارے ہاں بھی اے آئی پر کافی کام ہو رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اے آئی کی اخلاقیات کے حوالے سے تیار ہیں؟ ذاتی طور پر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں اپنے گرد و پیش دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اے آئی کے تکنیکی پہلوؤں پر تو کافی توجہ دی جا رہی ہے، لیکن اس کے اخلاقی، سماجی اور قانونی مضمرات پر ابھی بھی کافی کم بحث ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جب ہم اے آئی ٹیکنالوجیز کو اپنائیں تو اس کے اخلاقی پہلوؤں کو بھی اسی اہمیت سے دیکھیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں اے آئی کی ترقی انسانی اقدار اور معاشرتی بھلائی کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ پاکستان میں بھی اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے تاکہ ہم اس عالمی رجحان کا حصہ بن سکیں اور اس کے منفی اثرات سے بچ سکیں۔
مقامی چیلنجز اور مواقع
پاکستان میں اے آئی کی اخلاقیات کے حوالے سے اپنے منفرد چیلنجز اور مواقع ہیں۔ ایک طرف، ہمارے پاس نوجوان اور باصلاحیت ٹیک ماہرین کی ایک بڑی تعداد ہے جو اے آئی کے شعبے میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارے ہاں ڈیٹا پرائیویسی اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے قوانین اور عوامی بیداری کا فقدان ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے تعصبات بھی موجود ہیں جو اگر اے آئی ماڈلز میں شامل ہو جائیں تو بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب چیلنجز مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہم ان چیلنجز سے سیکھ کر ایسے ماڈلز تیار کر سکتے ہیں جو ہمارے مقامی سیاق و سباق کے لیے موزوں ہوں اور اخلاقی معیارات پر پورا اتریں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تعلیمی، صنعتی اور حکومتی اداروں کے درمیان گہرا تعاون قائم کرنا ہوگا۔
حکومتی اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری

میرے خیال میں پاکستان میں اے آئی کی اخلاقی ترقی کے لیے حکومتی اور تعلیمی اداروں کا کردار کلیدی ہے۔ حکومت کو ایسے قوانین اور پالیسیاں بنانی چاہئیں جو ڈیٹا کی رازداری، الگورتھمک شفافیت اور اے آئی کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنائیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کو اپنے نصاب میں اے آئی اخلاقیات کو شامل کرنا چاہیے تاکہ ہمارے آئندہ ماہرین شروع سے ہی اس بات سے واقف ہوں کہ اے آئی کے اخلاقی پہلو کتنے اہم ہیں۔ یہ صرف تکنیکی مہارتوں کی بات نہیں ہے بلکہ اخلاقی ذمہ داری کی بات بھی ہے۔ جب ہمارے انجینئرز اور سائنسدان اخلاقی اصولوں کے ساتھ اے آئی سسٹم بنائیں گے، تب ہی ہم ایک محفوظ اور فائدہ مند اے آئی مستقبل کی امید کر سکتے ہیں۔
اے آئی کے مستقبل پر انسانیت کا کنٹرول
دوستو، اے آئی کا مستقبل روشن ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اس کی روشنی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس پر انسانیت کا کنٹرول برقرار رہے۔ میں نے خود اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ٹیکنالوجی خواہ کتنی بھی جدید کیوں نہ ہو، اسے انسانیت کے بہترین مفاد میں ہی استعمال ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ جب اے آئی ایجنٹس ہمارے روزمرہ کے کاموں میں مزید فعال کردار ادا کرنے لگیں گے، تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ ہماری اقدار، ہماری اخلاقیات اور ہماری مرضی کے تابع رہیں۔ یہ ایک ایسا نازک توازن ہے جسے برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اے آئی کو بے لگام چھوڑ دیں گے تو اس کے نتائج ناقابل تصور ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے، ہمیں ابھی سے ایسی حکمت عملیوں پر کام کرنا ہوگا جو اے آئی کو انسانی کنٹرول میں رکھیں اور اسے ایک طاقتور آلے کے طور پر استعمال کریں جو ہمارے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے، نہ کہ نئے مسائل پیدا کرے۔
انسانی اقدار کی برتری
مجھے یہ یقین ہے کہ ٹیکنالوجی کو ہمیشہ انسانی اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔ اے آئی کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہو جائے، انسانیت کی سمجھ بوجھ، اخلاقی شعور اور احساسات کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیں ترقی کی دوڑ میں اپنی انسانیت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اے آئی کی ترقی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے اے آئی سسٹمز بنانے چاہئیں جو انسانیت کے بنیادی حقوق، مساوات، آزادی اور انصاف کا احترام کریں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب اے آئی کی ڈیزائننگ، ڈویلپمنٹ اور تعیناتی کے ہر مرحلے پر اخلاقیات کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
باہمی تعاون سے ترقی
اے آئی کا مستقبل کسی ایک فرد یا کمپنی کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ ایک عالمی چیلنج اور موقع ہے جس پر باہمی تعاون سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب مختلف شعبوں کے ماہرین، یعنی سائنسدان، انجینئرز، اخلاقیات کے ماہرین، قانون ساز اور فلسفی، سب مل کر کام کرتے ہیں تو بہترین نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اے آئی کی ترقی میں تمام فریقین کی آواز شامل ہو۔ یہ صرف حکومتوں یا بڑی کارپوریشنز کا کام نہیں، بلکہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر کام کریں گے تو ہم ایک ایسا اے آئی مستقبل تشکیل دے سکیں گے جو نہ صرف تکنیکی طور پر ایڈوانس ہوگا بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط اور انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
تخلیقی اے آئی اور اخلاقی حدود
دوستو، آج کل تخلیقی اے آئی (Generative AI) کا چرچا ہر طرف ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے یہ ٹیکنالوجی چند سیکنڈ میں تصاویر، تحریریں اور موسیقی تخلیق کر سکتی ہے، جو بظاہر انسانی تخلیق سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں کئی اخلاقی سوالات بھی ابھرتے ہیں۔ جب اے آئی اتنی مہارت سے تخلیق کرنے لگے گا تو اصل تخلیقی صلاحیت کا کیا ہوگا؟ کیا فنکار، لکھاری اور موسیقار بے کار ہو جائیں گے؟ اس سے بھی بڑھ کر، کیا ہم اے آئی کی تخلیق کردہ معلومات پر اعتماد کر پائیں گے، خاص طور پر جب یہ گہری جعل سازی (deepfakes) کی شکل میں جھوٹی خبریں اور مواد پھیلانے کے لیے استعمال ہو؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی نازک میدان ہے جہاں ہمیں بہت احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ تخلیقی اے آئی کے لیے کیا اخلاقی حدود ہونی چاہئیں تاکہ اس کے فوائد سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور اس کے ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے۔
مصنوعی تخلیق اور اصلیت کا مسئلہ
جب اے آئی ایسی تصاویر یا تحریریں بنا سکتا ہے جو انسان کی بنائی ہوئی لگیں، تو اصلیت اور نقل کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے لوگ اے آئی کی بنائی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز کو سچ سمجھ کر شیئر کر رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، خاص طور پر جب یہ معلومات غلط خبریں پھیلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایسی کوئی ضرورت ہے کہ اے آئی کی تخلیق کردہ ہر چیز پر واضح طور پر یہ نشان لگا ہو کہ یہ مشین سے بنی ہے؟ میرا ماننا ہے کہ شفافیت یہاں بہت اہم ہے۔ صارفین کو یہ جاننے کا حق ہے کہ وہ کس قسم کے مواد سے互动 کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف گمراہی سے بچا جا سکے گا بلکہ انسانی فنکاروں اور تخلیق کاروں کی قدر بھی برقرار رہے گی۔
اخلاقی حدود کا تعین
تخلیقی اے آئی کی حدود کا تعین کرنا ایک پیچیدہ کام ہے، لیکن یہ ضروری ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کن شعبوں میں اے آئی کو تخلیقی آزادی دی جا سکتی ہے اور کن میں نہیں۔ مثال کے طور پر، اگر اے آئی کسی کی شناخت چوری کر کے اس کی آواز یا تصویر استعمال کرتا ہے، تو یہ ایک واضح اخلاقی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح، نفرت انگیز مواد یا تشدد کو فروغ دینے والے مواد کی تخلیق کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا ہوگا جو اے آئی کی تخلیقی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرے اور اسے غیر اخلاقی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہوگا کیونکہ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے بدل رہی ہے، لیکن اخلاقیات ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہیں گی۔
| اے آئی اخلاقیات کے اہم ستون | تفصیل |
|---|---|
| شفافیت | اے آئی سسٹم کے فیصلوں کی وضاحت، یہ کیسے کام کرتا ہے اور کیوں ایک خاص فیصلہ کیا جاتا ہے۔ |
| انصاف اور عدم تعصب | اے آئی سسٹمز تمام افراد کے ساتھ مساوی سلوک کریں، اور کسی قسم کے تعصب سے پاک ہوں۔ |
| رازداری اور ڈیٹا کا تحفظ | صارفین کی ذاتی معلومات کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ان کے استعمال پر کنٹرول ہو۔ |
| جوابدہی | اے آئی کی غلطیوں یا نقصان کی صورت میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور اس کی اصلاح ہو۔ |
| انسانی کنٹرول اور نگرانی | اے آئی سسٹم ہمیشہ انسانی کنٹرول میں رہیں اور اہم فیصلوں پر انسان کی حتمی اتھارٹی ہو۔ |
اے آئی اور انسانیت کی مشترکہ ترقی
آخر میں، دوستو، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اے آئی کا مقصد انسانیت کو پیچھے چھوڑنا نہیں بلکہ اس کی مدد کرنا ہونا چاہیے۔ میں نے خود یہ بات مشاہدہ کی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ہر دور میں انسان نے اسے اپنی بہتری کے لیے استعمال کیا ہے۔ اے آئی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ہمیں ایسے مواقع فراہم کر رہا ہے جن کا ہم نے پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ چاہے وہ پیچیدہ سائنسی تحقیق ہو، بیماریوں کا علاج ہو، یا روزمرہ کے کاموں کو آسان بنانا ہو، اے آئی کے پاس بے پناہ صلاحیت ہے۔ لیکن اس صلاحیت کو صحیح سمت دینے کے لیے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار اور انسانیت کی فلاح کو ہمیشہ ترجیح دینی ہوگی۔ اگر ہم اے آئی کی ترقی کو اخلاقی رہنما اصولوں کے تحت رکھیں گے تو یہ واقعی ایک ایسا انقلاب لا سکتا ہے جو انسانی تاریخ کو بدل دے گا۔ میرے خیال میں ہمیں اے آئی سے ڈرنے کی بجائے اسے سمجھنے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک شراکت داری ہے جہاں انسان اپنی تخلیقی صلاحیت اور اخلاقی شعور کے ساتھ اے آئی کی تکنیکی مہارت کو جوڑ کر ایک بہتر اور خوشحال مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
اخلاقی ڈیزائن کی اہمیت
اے آئی سسٹم کی ڈیزائننگ کے ابتدائی مرحلے سے ہی اخلاقیات کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم شروع میں ہی اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیں گے تو بعد میں ان مسائل کو حل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اخلاقی ڈیزائن کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک اے آئی سسٹم کو بنایا جا رہا ہو تو اس کے ممکنہ معاشرتی اثرات، تعصبات، رازداری کے مسائل اور ذمہ داری کے سوالات پر گہرا غور کیا جائے۔ یہ صرف کوڈنگ کا معاملہ نہیں بلکہ اخلاقی فلسفے، معاشرتی علوم اور قانون کا امتزاج ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو کمپنیاں اور ڈویلپرز اخلاقی ڈیزائن کو اہمیت دیتے ہیں، ان کی پروڈکٹس زیادہ قابل اعتماد اور معاشرتی طور پر زیادہ قبول کی جاتی ہیں۔ یہ صرف ایک اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ ایک بہترین کاروباری حکمت عملی بھی ہے۔
مستقبل کی طرف ایک ذمہ دارانہ قدم
آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہم اے آئی کے مستقبل کی سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمیں ایک ایسا مستقبل بنانا ہے جہاں اے آئی انسانیت کی معاونت کرے، نہ کہ اسے متبادل بنائے۔ اس کے لیے ہمیں مسلسل سیکھتے رہنا ہوگا، اخلاقیات پر بحث کرتے رہنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہماری ٹیکنالوجی ہماری بہترین اقدار کی عکاسی کرے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر، ذمہ داری اور ہوشمندی کے ساتھ اس سفر پر چلیں گے تو ہم ایک ایسے مستقبل کی تخلیق کر سکیں گے جہاں اے آئی واقعی انسانیت کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔ یہ ایک طویل سفر ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں ابھی سے قدم اٹھانے ہوں گے۔
اختتامیہ
یقین کریں دوستو، مصنوعی ذہانت کا سفر ایک ایسی نئی دنیا کا دروازہ ہے جو مسلسل نئے سوالات اور چیلنجز لے کر آتا ہے۔ میں نے اپنی ذاتی بصیرت اور تجربے کی بنیاد پر آپ کے سامنے کچھ ایسے نکات رکھے ہیں جو مجھے لگتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی ذمہ دارانہ ترقی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ یہ صرف ایک ٹیکنیکی جدوجہد نہیں بلکہ انسانیت کی اقدار اور اخلاقی اصولوں کو بھی پرکھنے کا ایک موقع ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم سب مل کر، ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو ہم اے آئی کے ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھ سکیں گے جو انسانیت کے لیے واقعی فائدہ مند ہو۔ یہ وقت ہے کہ ہم ہوش مندی سے کام لیں اور یہ یقینی بنائیں کہ ٹیکنالوجی ہمارے کنٹرول میں رہے اور ہمیشہ انسانیت کی خدمت کرتی رہے۔
جاننے کے لیے مفید معلومات
1. ہمیشہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جو AI ٹول استعمال کر رہے ہیں اس کی ڈیٹا پرائیویسی پالیسی کو بغور پڑھیں۔ یہ آپ کی ذاتی معلومات کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے تاکہ کوئی بھی غیر متعلقہ پارٹی آپ کے ڈیٹا کو غلط استعمال نہ کر سکے۔
2. AI سے متعلق تازہ ترین خبروں اور ڈویلپمنٹس پر نظر رکھیں تاکہ آپ نئے اخلاقی چیلنجز اور ان کے حل سے باخبر رہیں۔ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے بدلتی ہے اور نئی معلومات آپ کو اپنی رائے بنانے میں مدد دے گی کہ ہم اس کے ساتھ کیسے پیش آئیں۔
3. تخلیقی AI کے ذریعے تیار کردہ مواد کو ہمیشہ تنقیدی نظر سے دیکھیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا یہ اصل انسانی تخلیق ہے یا مشین کی تخلیق، خاص طور پر جب معلومات حساس نوعیت کی ہو یا عوامی رائے پر اثر انداز ہو سکتی ہو۔
4. اپنی کمیونٹی اور دوستوں کے حلقے میں AI کی اخلاقیات پر بحث کو فروغ دیں۔ جتنے زیادہ لوگ اس بارے میں بات کریں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ہم مشترکہ حل تلاش کر سکیں اور اجتماعی شعور کو پروان چڑھا سکیں۔
5. AI کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اس کی حدود کو بھی سمجھیں۔ ہر کام AI پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اور انسانی فیصلہ سازی، تخلیقی سوچ اور اخلاقی شعور کی اہمیت کو ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ ہمارے کنٹرول کی آخری لکیر ہے۔
اہم نکات کا خلاصہ
دوستو، آج کی ہماری تفصیلی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے اخلاقی پہلوؤں پر گہرا غور کرنا ہوگا۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے رہنما اصول وضع کریں جو AI کو ذمہ داری، شفافیت اور انسانی اقدار کے مطابق استعمال کرنے میں ہماری مدد کریں۔ فیصلوں کی ذمہ داری کا تعین کرنا، ذاتی ڈیٹا کی رازداری کو یقینی بنانا، الگورتھمک تعصبات کا خاتمہ کرنا، اور AI سسٹمز میں انسانی کنٹرول کو ہمیشہ برقرار رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ اور بھی اہم ہے کہ وہ اس میدان میں فعال کردار ادا کریں تاکہ ہم اس ٹیکنالوجی کے فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور اس کے ممکنہ نقصانات سے بچ سکیں۔ یاد رکھیں، AI کا مقصد انسانیت کو مضبوط بنانا ہے، نہ کہ اسے کمزور کرنا۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: مصنوعی ذہانت (AI) کے اخلاقی پہلوؤں کو سمجھنا ہمارے لیے کیوں ضروری ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں؟
ج: دیکھیں، یہ سوال بہت اہم ہے اور مجھے اس پر دل کھول کر بات کرنا پسند ہے۔ جب میں نے پہلی بار AI کے بارے میں پڑھا تو مجھے لگا یہ تو صرف کوڈ اور کمپیوٹرز کا کھیل ہے، لیکن جتنا میں نے اسے اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھا ہے، اور جتنے لوگوں سے اس بارے میں بات کی ہے، اتنا ہی مجھے احساس ہوا ہے کہ یہ ہماری زندگیوں کو بالکل نئے انداز میں بدل رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ابھی بھی بہت سی چیزیں روایتی طریقے سے چل رہی ہیں، وہاں AI کا اچانک آنا بہت سارے نئے سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔سچ پوچھیں تو، AI کے اخلاقی پہلوؤں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ صرف ٹیکنالوجی نہیں، یہ ہماری اقدار، ہمارے معاشرتی ڈھانچے اور ہمارے روزگار پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر فکر ہوتی ہے جب میں سوچتا ہوں کہ اگر AI سسٹم کو صحیح طرح سے ڈیزائن اور استعمال نہ کیا گیا تو یہ ہمارے معاشرے میں تعصب کو مزید بڑھا سکتا ہے، یا ڈیٹا کی رازداری جیسے حساس معاملات میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ ابھی بھی اس ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر واقف نہیں ہیں، اور ایسے میں اگر ہم اس کے اخلاقی پہلوؤں پر بات نہیں کریں گے، تو بہت ممکن ہے کہ جو ٹیکنالوجی ہمیں فائدہ پہنچانے آئی ہے، وہ مسائل کا سبب بن جائے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ AI انسانوں کا بنایا ہوا ہے، اور اس لیے اس میں ہمارے اپنے تعصبات بھی آ سکتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک ایسا نظام بنائیں جو فیصلے کرتے وقت کسی کی ذات، رنگ یا مذہب کی بنیاد پر فرق نہ کرے؟ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، اور اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک مضبوط “اے آئی اخلاقیات کا فریم ورک” چاہیے جو یقینی بنائے کہ یہ ٹیکنالوجی سب کے لیے یکساں اور منصفانہ ہو۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود اس کے اخلاقی پہلوؤں کو سمجھیں گے اور اپنی آواز بلند کریں گے۔ ورنہ اگر ہم نے اسے بے لگام چھوڑ دیا تو نتائج کچھ اور ہو سکتے ہیں، اور ایک پاکستانی کے طور پر میں نہیں چاہوں گا کہ ہماری قوم اس سے کوئی نقصان اٹھائے۔
س: AI کی اخلاقیات کے حوالے سے پاکستان کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟
ج: ہائے، یہ سوال تو بالکل میرے دل کی بات کہہ دی آپ نے! میں نے جب بھی AI اور اس کے چیلنجز پر غور کیا ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاکستان میں کچھ بہت خاص مسائل ہیں جو ہمیں دوسروں سے زیادہ متاثر کر سکتے ہیں۔ پہلا اور سب سے بڑا چیلنج جو مجھے محسوس ہوتا ہے، وہ ہے “ڈیٹا کی رازداری”۔ آپ خود سوچیں، جب AI سسٹمز ہمارے ذاتی ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے کریں گے تو اس ڈیٹا کی حفاظت کون کرے گا؟ ہمارے ملک میں تو ابھی بھی ڈیٹا کی حفاظت کے حوالے سے مضبوط قوانین کی کمی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب میرا آن لائن ڈیٹا کسی وجہ سے لیک ہوا تو مجھے کتنا پریشان ہونا پڑا تھا، تو ایسے میں AI کے بڑے پیمانے پر ڈیٹا کے استعمال سے یہ مسئلہ کتنا بڑھ سکتا ہے!
دوسرا بڑا چیلنج “بے روزگاری” کا خطرہ ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں، “کیا AI ہماری نوکریاں چھین لے گا؟” اور یہ ایک جائز خوف ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے فیکٹریوں اور سروس سیکٹر میں AI کی وجہ سے بہت سے کام خودکار ہو رہے ہیں اور اس سے ملازمین کو تشویش لاحق ہے۔ اگر ہماری حکومت اور پالیسی ساز اس پر پہلے سے غور نہیں کریں گے اور لوگوں کو نئی مہارتیں سکھانے کا انتظام نہیں کریں گے، تو یہ ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ بن سکتا ہے۔اور تیسرا جو چیلنج ہے وہ “فیصلوں میں تعصب” کا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، AI وہی سیکھتا ہے جو اسے سکھایا جاتا ہے۔ اگر اس کو سکھانے والے ڈیٹا میں پہلے سے ہی ہمارے معاشرتی تعصبات شامل ہوں گے، تو AI کے فیصلے بھی تعصب پر مبنی ہوں گے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے، خاص طور پر ہمارے ہاں جہاں مختلف طبقات اور علاقوں کے لوگوں کے درمیان پہلے ہی کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ان چیلنجز کو بروقت اور سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تو AI کی ترقی ہمارے لیے بہت مشکل ہو سکتی ہے۔
س: “اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز” پاکستان میں کس طرح مددگار ثابت ہو سکتی ہیں؟ اور کیا پاکستان میں ایسی کوششیں ہو رہی ہیں؟
ج: جی بالکل! یہ سوسائٹیز تو اس پورے مسئلے کا سب سے اہم اور مثبت پہلو ہیں۔ مجھے جب بھی ایسی تنظیموں کے بارے میں پتا چلتا ہے تو مجھے امید کی کرن نظر آتی ہے۔ یہ ‘اے آئی اخلاقیات سوسائٹیز’ بالکل ایک گائیڈ کی طرح ہوتی ہیں جو ہمیں ایک نئی اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں راستہ دکھاتی ہیں۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب کوئی نئی چیز آتی ہے تو اس کے بارے میں صحیح معلومات ملنا بہت ضروری ہوتا ہے، اور یہ سوسائٹیز وہی کام کرتی ہیں۔پاکستان میں بھی ایسی کوششیں ہو رہی ہیں، یہ سن کر مجھے دلی خوشی ہوئی۔ حال ہی میں، یونیسکو نے “AI for Humanity: Ethical and Inclusive AI in Pakistan” کے عنوان سے ایک ڈائیلاگ کا اہتمام کیا تھا، جہاں مختلف شعبوں کے نمائندوں نے مل کر ایک قومی AI پالیسی کے تحت جدت طرازی کے ماحولیاتی نظام پر بات کی۔ یہ بہت حوصلہ افزا قدم ہے!
ان سوسائٹیز کا سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ وہ مختلف اسٹیک ہولڈرز – یعنی حکومت، ٹیکنالوجی ماہرین، عام عوام اور صنعت کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں۔ یہ لوگ مل کر ایسے اصول و ضوابط بناتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ AI کا استعمال انسانیت کی فلاح کے لیے ہو، نہ کہ اس کے خلاف۔ان سوسائٹیز کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگوں میں شعور پیدا کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہر عام آدمی کو AI کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں معلوم ہو جائے، تو وہ زیادہ ذمہ داری سے اس کا استعمال کرے گا۔ یہ سوسائٹیز ورکشاپس اور سیمینارز کے ذریعے یہ تعلیم عام کرتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ ایسی سوسائٹیز ہی ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف لے کر جا سکتی ہیں جہاں AI ہماری ترقی کا زینہ بنے، نہ کہ کوئی رکاوٹ۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کے بارے میں نہیں، یہ انسانیت کے بارے میں ہے، اور مجھے امید ہے کہ یہ کوششیں پاکستان میں بہت جلد مثبت نتائج دکھائیں گی۔






